Part 1
میرا نام خالد اسلم ہے.میں آزاد کاشمیر کا رہنے والا ہوں.مجھے جنسی کہانیاں اور خاص طورپر گھریلو کہانیاں جس میں رستےداروں کے درمیان کہانی ہوبوہت پسند ہیںمیرے والد کا نام سردار اسلم ہے اور میری والدہ کا نام پروین ہے. میرے والد کی عمرکافی ہے یعنی میری والدہ ان سے بیس سال چھوتی ہیں.ہم دو بہن بھائی ہیں،فرح میری بڑی بہن ہے جس کی عمر ١٨ سال ہے اور فرح سے چھوٹا میں ہوں اور میری عمر ١٦ سال ہے.اور میری والدہ کی عمر ٣٧ سال ہے.
والد صاحب کا اپنا ذاتی کاروبار ہے.ان کی دو دوکانیں ہیں ایک راولپنڈی میں اور ایک مظفرآباد میں.اور ابا شادی کے فورن بعد راولپنڈی میں شفٹ ہو گیے تھے.راولپنڈی میں ابا کے ایک رشتے کے بھائی جمال کا گھر تھا اور ابا ،امی ان کے ساتھ ہی رہتے تھے.کچھ عرصہ قبل انکل جمال کراچی رہتے تھے اور وو ہماری پیدائش کے بعد کراچی سے واپس آکر اپنے گھر میں رہنے لگے
انکل جمال بوہت زندہ دل انسان تھے گو وو ابا سے چھوٹے تھے لیکن ابا ان سے بوہت پیار کرتے تھے.ایک اور بات جو میں بتانا بھول گیا کے انکل جمال نے شادی نہیں کی تھی.
میں اور فرح ان سے بوہت خوش رہتے تھے ، وو ہم کو اکثر شام کو اسلام آباد سیر کروانے لیجاتے تھے.
جب ابا مظفرآباد جاتے تھے تو امی بھی ہمارے ساتھ جاتیں تھیں.
انکل جمال کا گھرکوئی زیادہ برا نہیں تھا، دو کمرے نیچے ،ایک کچن،غسلخانہ ، اور ایک بڑا صحن اور دوسری منزل پر ایک کمرہ جس میں انکل رہتے تھے،دوسری منزل کو ایک راستہ گھر کے اندر سے اور ایک گھر کے بھر سے جاتا تھا ،بھر والا راستہ انکل کے دوستوں کے لیا تھا جو اکثر شام کو گھر اتے تھے اور رات کو دیر تک رہتے تھے.ان کے دوستوں میں زیادہ تر ان سے کم عمر کے دوست ہوتے تھے
ان کا گھر راولپنڈی کی ایک پرانی آبادی میں تھے جہاں لوگ کم رہتے تھے . میں اور میری بہن ایک ہی اسکول میں پرتھے تھے، ہمارا اسکول مٹرک تک تھااور ہمارے گھر اور اسکول کے بیچ لوکاٹ کے باغات تھے..
مرے والد صاحب ایک مہینے کے زیادہ دن مظفرآباد میں گذرتے تھے اور صرف ایک ہفتہ ہمارے پاس اتے تھے
اور جب ابا مظفرآباد ہوتے تھے تو جب ہم بوہت مزے کرتے تھے.رات کو دیر تک جاگنا ،فلمے دیکھنا ، سیر کرنا ، واغرہ واغرہ… اور امی بھی ہمارے ساتھ ہوتیں تھیں.ہماری امی انکل جمال کا بوہت خیال رکھتی تھیں.
انکل جمال کے گھر ایک لڑکا جس کی عمر ١٨ سال تھی اور نام جواد تھا روز اتا تھا اور جب وو اتا تھا تو انکل ہم کو نیچے بھیجہ دیتے تھے.جواد ہمارے گھر کے پاس ہی رہتا تھا اور وہ کافی بدنام تھا اپنے علاقے میں.جواد کے کچھ دوست اور بھی تھے جو انکل جمال کے گھر جواد کے ساتھ اتے تھے اور ان میں ایک لڑکا فیضان تھا. جو فرح کی سہیلی کا بھائی تھا.
دوستوں میں یا داستان اپنی عمر کے ٢٥ سال گزارنے کے بعد سنا رہا ہوں.اور جو واقعیات میں آپ کو بتاؤں گا وہ اس وقت کے ہیں جب میری عمر ١٥ یا ١٦ سال کی تھی.
ایک ہفتے کی رات تھی اور شہر میں بارش ہو رہی تھی،انکل جمال اسلام آباد گئے ہووے تھے. جب وہ دیر تک واپس نہیں اے تو امی بوہت پریشان ہو گیئں پھر انکل جمال کا فون آگیا
اور انھوں نے بتایا کے جب بارش روکے گی وہ تب گھر ییں گے. بارش اور تیز ہو گی تھی. میں اور فرح امی کو بتا کر اوپرانکل کے روم میں چلے گیے اور ووہان ٹی.وی دیکھنے لگے. امی اپنے روم میں چلی گیئں اور انکل جمال کا انتظار کرنے لگیں
فرح اور مجھ میں دو سال کا فرق تھا ،وہ مجھ سے بڑی تھیں لیکن وو مجھ سے کافی بڑی لگتیں تھیں،ان کا اونچا قد،گورا رنگ، بھرا بھرا جسم ، اور کلے لمبے بال ان کی عمر زیادہ بتاتے تھے. مختصر یا کے وو بوہت خوبصورت تھیں اور لوگ ان کو امی کی چھوتی بہن لگتیں تھیں.خیر ہم تی وی دیکھ رہے تھے کے باہر والے راستے کی گھنٹی بجی، میں سمجھا کے جمال انکل آییں ہیںاور میں نے دروازہ کھول دیا لیکن ووہان فیضان کھڑا تھا میں اسے اندر لے آیا. وہ بارش کے پانی سے بھیگ چکا تھا.
فرح بولی؛؛فیضان تمارا دماغ خراب ہے جو اس بارش میں تم ادھر یے ہو.
فیضان بولا؛؛؛ فرح مجھے انکل سے کام تھا ..کہاں ہیں وہ؟
میں بولا؛؛ وہ تو اسلام آباد میں ہیں اور جب بارش روکے گی تو واپس آیینگے
تو اس نے کہا کے کیا میں انتظار کر لوں
فرح نے کہا کر لو لیکن اپنے کپڑے تو بدل لو بلکل بھیگ چکے ہیں اور مجھے کہا کے اپنا کوئی لباس فیضان کو دے دوں اور یا کہ کر وہ امی کے پاس نیچے چلیں گیئں اور جاتے جاتے یا بھی کہ گیئں کے جب انکل جمال آییں تو میں ان کو بتا دوں.میں نے فیضان کو اپنے کپڑے لا کر دیے جو اس کے جسم کے لیا تنگ تھے
رات کے نو بج چکے تھے اور ابھی تک انکل جمال کا کوئی پتا نہیں تھا.ہم دونوں ٹی وی دیکھنے لگے اور ساتھ ساتھ باتیں کرتے رہے
میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کے جواد،فیضان اور شارق
کی دوستی انکل جمال سے کیوں ہے لیکن اس کا جواب مجھے نہیں پتا تھا.لیکن دل میں خواہش تھی کے اس کی وجہ معلوم کروں.
خیر فیضان مجھے گھورکر دیکھ رہا تھا. میں اس کے گھورنے سے کچھ گھبرا سا گیا،اور اس سے نظریں چرانے لگا.میں نے شلوار اور قمیض پہنی هوئ تھی جب کے فیضان نے پنٹ اور ٹی شیٹ اور وہ مجھ سے زیادہ صحت مند تھا اور اسی لیا مرے کپڑے اس کو تنگ تھے.اس کمر پر بیلٹ نہیں بندھی تھی کیونکے اس کے چوتربھی موٹے موٹے تھے.
فیضان نے مجھے کہا کے آو باہر بارش کا مزہ لیتے ہیں تو میں اور وہ چھتہ پے آگیا،ہم دونوں بارش میں جلد ہی بھیگ گیے.میں چھتہ کی دیوار کے ساتھ کھڑا سڑک کو دیکھ رہا تھا اور تیز بارش بوندوں سے اپنے اپ کو بچا رہا تھا.ہم دونوں کے کپڑے گلے ہو کر جسم سے چپکے ہووے تھے. اتنے میں زوردار بجلی چمکی اور میں ڈرکے پیچھے ہوا تو فیضان سے ٹکرا گیا. اور اس کا دھڑمرے جسم سے چپک گیا اور کوئی سخت چیز مرے چوتروں میں گھس گی،میں ہاتھ لگا کر دیکھا تو وہ چیز فیضان کا للا تھا. میں نے غصّے سے فیضان کو دھکھا دیا لیکن اس نے مجھے پیار سے بھنج لیا. پھر اس نے میری للی کو پکڑ لیا اور اس کو ہلانا شروع کردیا
.اس کا لنڈ ابھی تک مرے چوتروں کی درمیان گھسا ہوا تھا، مجھے بھی یا سب اچھا لگنے لگا اور میں نے مدافعت کرنا ترک کر دی . میری شلوار پوری طرھ بھیگ کر میری ٹاگوںسے چپک گیئ تھی.
فیضان متواتراپنے لنڈ کو میری گانڈمیں گھسا رہا تھا لیکن شلوار کے اوپر سے. اس کا لنڈ بھوحت لمبا اور موٹا تھا.خاص طور پر اس کے لنڈ کا ٹوپا کافی بڑا تھا.
مجھے اس کام کا زیادہ پتا نہیں تھا ،لیکن اتنا معلوم تھا کے لڑکے لڑکے آپسمیں یا کرتے ہیں اور مجھ بھی کافی لوگوں نے اس طرف راغب کرنے کی کوشش کی تھی، ہمارے گھر کے پاس ایک سبزی والے کی دوکان ہے اور اس نے کی دفع مجھے پیار وغیرہ کیا تھا اور اپنی دوکان کے ساتھ والے کمرے میں لی جا کر میری گانڈ مرنے کی کوشش بھی کی تھی مگر میں وہاں سے بھگ آیا تھا ، اس کے علاوہ اور کافی لوگوں نے مرے ساتھ اوپر اوپر سے پیار کیا تھا.، بس جواد سے میرا دل لگتا تھا کیوں کے وہ مجھے اچھا لگتا تھا. فیضان نے مجھے کہا کے میں نیچے کا دروازہ بند کر دوں
میں نے جا کر دروازہ بند کر دیا تو فیضان میرا ہاتھ پکڑ کر انکل کے کمرے میں آگیا اور مجھے پیار کرنا لگا ،اس نے مرے ھوٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیا اور چوسنے لگا،اور اپنا ایک ہاتھ میری شلوار کے اندر دل کر مرے چوتروں کو ملنے لگا جس کی وجہ سے مجھے بھوحت مزہ آرہا تھا.پھر فیضان نے اپنا لنڈ پنٹ سے باہر نکالا اور مجھے پکڑا دیا.میں نے اک کا لنڈ پکڑ کر اوپر نیچے ہلانے لگا.
تھوڑی دیر گزارنے کے بعد فیضان نے انکل جمال کی الماری کھولی اور وہاں سے ایک کریم کی ٹیوب نکالا اور مجھے کپڑے اتارنے کو کہا جو میں نے اتار دیے.اور اپنی انگلی سے میری گانڈ کے جھید پر کریم لگی.
میں بولا. فیضان بھائی آپ یہ کیا کر رہے ہو
فیضان بولا؛؛خالد اس کریم سے تمہاری گانڈ کا ہولے ہول نرم ہو جائے گا.
فیضان نے کافی کریم میری گانڈ پر ملی اور اپنی انگلی بھی اندر کرنے لگا جس سے مجھے بےانتہا درد ہوا اور مرے مو
سے چیخ نکل گی، تو فیضان نے انگلی کرنا بند کردی لیکن مرے لنڈ کو ہلانا بند نہیں کیا جس کی وجہ سے میں گرم ہوتا رہا اور جب دوبارہ فیضان نے میری گانڈ میں انگلی کی تو میں اس درد کو برداشت کرتا رہا.جب فیضان نے یہ محسوس کیا کے میری گانڈ نرم ہو گی ہے تو اس نے مجھے کھڑکی کے پاس لیجا کرمیز کے کونے پر الٹا لیتا دیا. میرے پاؤں فرش پر تھے اور کمر میز پر ٹکی هوئ تھی.فیضان نے اپن لنڈ پر تھوک لگائ اور اپنا موٹا لنڈ میری گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر آہستہ سے اندر کرنے کی کوشش کی جو کامیاب نہ هوئ.مجھے بھی درد ہو رہا تھا اور میری گانڈ بھی بھوحت ٹائٹ/ تنگ تھی
پھر فیضان نے اپنے اپنے لنڈ اور میری گانڈ پر تیل لگایا اور اپنے لنڈ کو دوبارہ میری گانڈ میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگا.
اس نے مجھے مرے کندھوں سے پکڑ لیا اور اپنا لنڈ میری گانڈ کے سوراخ پر رکھ دیا.پھر اس نے ہلکے ہلکے اندر کیا لیکن مجھے درد ہوا اور مرے آنسو نکل پڑے پر میں سوچ لیا تھا کے میں یہ سب برداشت کر لوں گا. میری گانڈ کا سوراخ اب کچھ کھل گیا تھا اور جب فیضان نے دیکھا کے میں تیار ہوں تو اس نے اپنے لنڈ کا ٹوپا میری گانڈ میں داخل کردیا.میری تو سانس رک گیی اور آنکھیں باہر کو آگیئں اور میں نے اپنی گانڈ بینچ لی تاکے فیضان اپنا لنڈ اور اندر نہ کر سکے، پر میں فیضان نے مجھے پوری ترہان اپنی گرفت میں جکڑا ہوا تھا اور میں ہل بھی نہیں سکتا تھا.فیضان نے اب اپنا ٹوپا میری گانڈ میں ایک جھٹکے کے ساتھ اندر کر دیا ،میں درد سے بےحال ہو گیا لیکن فیضان نے اپنا لنڈ میری گانڈ میں پورا گھسا دیا اور پہلے ہلکے اور پھر پوری طاقت سے میری گانڈ مارنے لگا، وقت کے ساتھ مرے درد میں بھی کمی ہوتی جا رہی تھی اور میں بھی مزے لے رہا تھا
اور میں نے اپنی گانڈ کو ڈھلا چھوڑ دیا تا کے
فیضان کا لنڈ پورا اندر جا سکے.
مرے اندر کچھ ہو رہا تھا ،میرا لنڈ بھی میز سے ٹکرا ٹکرا کر پورا تن گیا تھا اور اوپر سے فیضان کے طاقت وار جھٹکے مجھے اور پاگل بنا رہے تھے،، مجھے لگا کے مرے لنڈ سے کچھ نکلنے والا ہے اور پھر سفید رنگ کا گھڑا پانی مرے لنڈ سے نکلا تو مجھے سکون ملا .. فیضان اب بھی اسی رفتار سے میری گانڈ مر رہا تھا ،، میں نے اس کو کہا ؛؛ اب بس کرو فیضان بھائی ، لیکن اس نے میری ایک نہ سنی اور میری گانڈ مارتا رہا جب تک اک کے لنڈ نے پوری پانی میری گانڈ میں نہ ڈال دیا.
مجھے پہلی دفع گانڈ مرنے کا جو مزہ آیا میں اس کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا.
اتنے میں باہر کی گھنٹی بیجی تو ہم نے اپنے اپنے کپڑے ٹھیکہ کیا ، پھر میں نے دروازہ کھولا تو انکل جمال تھے. ان کے ساتھ جواد بھائی بھی تھے ،وو دونوں جلدی سے کمرے کے اندر آگے، بارش ابھی تک نہیں رکی تھی.
انکل جمال نے مجھے کہا کے جا کر امی کو بتا دو کے میں آگیا ہوں. میں نے نیچے اکر امی اور فرح کو بتا دیا کے انکل آگےا ہیں تو امی اور فرح دونوں نے اطمینان کا سانس لیا اور امی انکل کے لیا کھانا بنانے لگ گیئں
مرے پیٹ میں بوہت درد ہو رہا تھا میں بیت روم چلا گیا .. جب واپس سہن میں آیا تو امی نے کہا کے کیا بات ہے ،تمہاری چال کیوں بگاڑ گیے ہے تو میں نے بہانہ بنایا کے میں بارش میں پیسل گیا تھا،
پھر امی نے انکل جمال اور جواد بھائی اور فیضان بھی کو نیچے بلوایا اور انھوں نے ہمارے ساتھ کھانا کھایا اور کھانا کے بعد وو تینوں اوپر چلے گیا.
میں اپنے کمرے میں اکر لیت گیا کیوں کے میری گانڈ بوہت بری ترہان دکھ رہی تھی اور جھید بھی سوجھ ہوا تھا اور میں الٹا لیٹا ہوا تھا اور سوچ رہا تھا کے انکل کے کمرے میں گانڈ کے سوراخ کو ڈھلا کرنے والی کریم اور پھر فیضان بھائی کو اس کا پتا ہونا . مری عقل کام نہیں کر رہی تھی … کیا انکل جمال کا جواد بھائی اور فیضان بھائی کے ساتھ کوئی گلط رشتہ ہے ،، کیوں کے فیضان اور جواد بھائی بوہت خوبصورت تھے لیکن دونوں کافی بدنام تھے ، پھر میں نے سوچ لیا کے میں معلوم کر کے رہوں گا کے ان تینوں کے درمیان کیا رشتہ ہے.
کوئی ١٠ بجے کے قریب انکل نے آواز دی کے ابو کا ٹیلیفون آیا ہے تو امی،فرح اور میں اوپر چلے گیے .
وہاں پر انکل جمال تھے اور ان کے ساتھ جواد بھائی تھے اور فیضان بھائی اپنے گھر چلے گئے تھے
پہلے میں نے ابا سے باتھ کی اور نیند کی وجہ سے نیچے آگیا . امی اور فرح وہیں تھیں اور ابا سے بات کر رہیں تھیں
تھوڑی دیر کے بعد فرح غصّے سے بھری کمرے میں واپس آییں اور اپنے سنڈل اتار کر دیوار پر میرے اور بستر پر گر پڑیں.اور بولیں میں سب کو دیکھ لوں گی
میں نے حیران ہو کر پوچھا ؛؛؛ فرح کس کو دیکھ لو گی،، کسی نے کچھ کہا تم کو.
میں اور فرح آپس میں فری تھے اور دوستوں کی ترہان باتیں کرتے تھے اور ایک دوسرے سے باتیں شیر کر لیتے تھے
فرح بولی ؛؛ یار تم ہر بات میں کیوں بولتے ہو
مجھے فرح کا رویہ کچھ عجیب لگا مگر میں کچھ نہیں بولا.
میری بہن فرح کی سخصیت میں اتنی کشش تھی کے جو بھی اسے ایک بار دیکھ لیتا تھا اسے بار بار گھورتا تھا .خاص طور پر اسکول کے لڑکے سب کے سب فرح کے گرد پروانوں کی ترہان مڈلاتے تھے اور جو چیز اسے ممتاز کرتی تھی وو اس کے چوتر یعنی گانڈ تھی.گول گول اور ابھری هوئ ، خمدار کمر ، مناسب مگر ذرا بڑے بریسٹ، لمبا قد امی کے برابر،،
ان سب کے ہوتے ہووے کیا کوئی ان کو نظر انداز کر سکتا ہے.
پھر میں نے فرح سے کچھ نہیں پوچھا کے وہ کس کو دیکھنے کا کہ رہی ہے.
فرح کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا تو اس نے مجھ سے کہا کے کیا میں نے کمپوٹر استعمال کرنا ہے ،تو میں نے اس کو کمپوٹر چلا کر دے دیا. (یہ کمپوٹر انکل جمال نے فرح کو اس کی ضد پر لیکر دیا تھا اور ساتھ میں مائک اور کیمرہ بھی دیا تھا) فرح کسی سے باتیں کرنے لگی .اور جب فیضان کا ذکر آیا تو پتا چلا کے وہ فیضان کی چھوتی بہن فائزہ سے باتیں کر رہی ہے. وہ اپنے اسکول کی باتیں کر رہی تھی اس لیا میں نے کوئی خاص خیال نہیں کیا.
میری امی ابھی تک انکل کے کمرے میں تھیں اور میں ان کا انتظار کر رہا تھا.بارش ابھی تک رکی نہیں تھی بلکے اس کی شدّت میں اور اضافہ ہو رہا تھا.تھوڑی دیر کے بعد انکل جمال نیچے ایے اور میرے پاس بیٹھ گیے. میں نے ان سے امی کا پوچھا تو انہوں نے کہا کے تو ابا سے بات کر رہیں ہیں اور تم فکر نہ کرو میں خود ان کو چھوڑ جاؤں گا . اور پھر وو ایک تکیہ اور کمبل لیکر ے کہتے ہووے چلے گیے کے آج جواد بارش کی وجہ سے ان کے کمرے میں سویہ گا.انہوں نے کجھے اور فرح کو پانچ پانچ سو روپے بھی دیا.
فرح کو نیند آ رہی تھی اس لیا وو جلد سو گیئ
میں بھی سونے کی کوشش کرنے لگا لیکن ناکام رہا.پھر میں اٹھ کر باہر صحن میں چلا آیا اور تیز ہوتی هوئ بارش کو دیکھنے لگا.اوپر جانے والی سیڑیوں کی لائٹ جل رہی تھی اور انکل جمال کا کمرہ بھی روشن تھا. میں یہ سوچ کر کے امی کو سیڑیوں کی چابی دے دوں ،میں اوپر چلا گیا .. اوپر کی چھت کا صحن کافی بڑا تھا اور کمرہ دو طرف سے کھڑکیاں تھیں جو عام طور کھلی رہتی تھیں. میں دروازے کی طرف گیا تو وو بند تھا. کمرے میں امی اور انکل جمال کے ہنسنے کی آوازیں آ رہی تھیں.میں نے امی کو آواز دی لیکن کوئی جواب نہیں آیا ، کیونکے بارش کی تیزی اور ہوا کی آواز کا شور کافی تھا.میں اس کھڑکی کی طرف گیا جو کھلی هوئ تھی.اندر امی اور انکل جمال لوڈو کھل رہے تھے اور دونوں مسہری کے کنارے پر گھوٹنوں کے بل بیٹھے ہووے تھے اور دونوں کے گھوٹنوں پر کمبل ڈالا ہوا تھا اور اس کے اوپر لوڈو کی بساط رکھی هوئ تھی.امی کے پیچھے جواد بھائی مسہری کے نیچے قالین پر بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے.
امی کی پشت یعنی کہولے مسہری سے باہر نکلے ہووے تھے امی کا سینہ ان کی رانوں پر تھا اور وو جھک کر کھیل رہیں تھیں
ان کے اس اسٹائل کو دیکھ کر میں حیرتزدہ رہ گیا کے چلو انکل جمال کی بات تو ٹھیک ہے لیکن جواد بھائی تو غیر ہیں. امی بوہت موڈرن تھیں وو زمانے کے مطابقچلتی تھیں . ان کے کپڑے بھی موڈرن ہوتے تھے . آج انہوں نے ہرے رنگ چھوتی اور تنگ قمیض اور پیلے رنگ کی اونچی شلوار زیب تن کی هوئ تھی
امی اور انکل جمال کے سر تقرباں ملے ہووے تھے اس ترہان امی کا گردن سے نیچے کا حصہ یعنی سینہ عریاں تھا.اور وو اس عریانیت سے لاپرواہ ہو کر کھیل میں مصروف تھیں.
کچھ دیر کے بعد انکل جمال بولے ؛؛؛ جواد تم کہاں مصروف ہو
جواد بھائی ؛؛؛ انکل میں ٹی وی دیکھ رہا ہوں ، بوہت اچھی فلم چل رہی ہے
انکل جمال؛؛ تم بور تو نہیں ہو رہے ہو ، تم بھی آجاؤ ،ہم تینوں مل کر کھیلتے ہیں اور امی سے بولے کیوں پارو،
امی بولیں ؛؛ مجھے کوئی اعتراض نہیں
جواد بھائی بولے ؛؛ نہیں آنٹی ، آپ کھیلیںمیں اپ کے ساتھ بیٹھ جاتا ہوں .
اور جواد بھائی امی کی چوتروں کے قریب ہو کر زمیں پر بیٹھ گیےاور اس ترہان بیٹھے کے ان کا ایک کندھا امی کے چوتروں میں گھس رہا تھا.
امی نے اس بات کا کوئی نوتکےنوٹس نہیں لیا بس وو اپنے کھیل میں مصروف رہیں. کوئی دس منت کے بعد جواد بھائی نے اپنے کندھے پر ہاتھ سے خارش کی تو امی نے مڑھ کر جواد بھائی کی طرف دیکھا تو جواد بھائی نے اپنا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹا لیا.
جواد بھائی نے اس حرکت کو کی دفع دوہرایا تو پھر امی نے کوئی حرکت نا کی. جب امی نے جواد بھائی کو کچھ نہیں کہا تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے امی کے چوتروں کو سہلانا شروع کردیا.
انکل جمال نے امی سے کہا کے میں واش روم سے ہو کر اتا ہوں بس یہی کوئی دس منت میں. اور وہ یہ کہ کر کمرے سے باہر آگیا
جس وقت جواد بھائی امی کے چوتروں پر ہاتھ پھر رہے تھے تو ان کا جسم مرے سامنے آگیا تھے اس لیا مجھے سب کچھ جو انہوں نے کیا تھا نظر نہیں آیا.جیسے ہی انکل جمال باہر گیے تو جواد بھائی نے تھوڑی سا ہلے تو میں نے دیکھا کے ان کا کندھا میری امی کی گانڈ میں گھسا ہوا ہے. امی بولیں ؛؛ جواد یہ کیا کر رہے ہو تم.
جواد بھائی بولے ؛؛ سوری آنٹی مجھے خیال نہیں رہا.اپ لوگوں کے کھیل دیکھنے میں مشغول تھا.
امی اور جواد بھائی دونوں انجاں بنے رہے اور اسی ترہان بیٹھے رہے ،خاص طور پر امی اسی ترہان گھوٹنوں کے سہارے بیٹھی رہیں
امی بولیں؛ جمال ابھی تک نہیں آیا
جواد بھائی بولے؛؛ آنٹی میں دیکھ کر اتا ہوں
امی؛ نہیں نہیں وو خود آجاے گا، اور تم کجھ کو آنٹی مت کہا کرو
جواد بھائی بولے ؛؛؛ پھر آپ کو کس نام سے موخاطب کیا کروں
امی بولیں پروین یہ باجی کہا کرو
جواب بھائی بولے ؛؛ مجھے پروین اچھا لگتا ہے
امی ہنستے ہووے بولیں ؛؛ جواد تم مجھے جس نام سے پوکرو مجھ کو اچھا لگے گا. کیا تم اسکول نہیں جاتے
جواد بھائی ؛؛ نہیں پروین، میں گھر ہوتا ہوں یہ پھر جب انکل جمال اتے ہیں تو ادھر آجاتا ہوں
امی بولیں ؛؛ میں بھی اکیلی ہوتیں ہوں گھر میں شام تک، اور اگر تم فری ہوتے ہو تو مورننگ میں آجایا کرو
جواد بھائی خوشی سے بولے ؛؛؛ میں آجاؤں گا پروین
امی ؛ جو ذرا جمال کو دیکھ کر آو
جواد بھائی اٹھے تو میں نے دیکھا ،ان کا لنڈ تنا ہوا تھا، امی نے بھی اس کے لنڈ کی طرف ایک نظر ڈالی اور بولیں ؛؛ جواد کل تم جلدی آجانا .
انکل جمال بھی واپس کمرے میں آگے، تو امی بولیں ؛؛ جمال اب میں جاتی ہوں رات کے ١٢ بج گیئں ہیں.انکل جمال امی کو چھوڑنے نیچے سیڑیوں تک آگے. میں ووہان پر چپ کر کھڑا تھا کے جب امی نیچے اور انکل اپنے روم میں واپس آییں تو میں اپنے کمرے میں واپس جاؤں.
لیکن میری آنکھیں اس وقت حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گیئں جب امی نے انکل جمال کو پیار کیا اور کہا کے میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں جب جواد سو جاے تو تم مرے کمرے میں آجانا ،میں دروازہ کھلا رکھوں گی.
انکل جمال بولے؛؛؛ پارو ، جواد جیسے ہی سوتا ہے میں اسی وقت آجاؤں گا.
پھر امی نیچے چلیں گیں اور انکل جمال اپنے روم میں آگے، اور میں اپنے روم میں جانے لگا تو انکل جمال اور جواد بھائی ایک دوسرے سے لپٹ کر پیار کرنے لگے.اور جواد بھائی نے انکل جمال کی گانڈ کو دبانا شروع کر دیا ،، مجھے اب یقین ہوا کے انکل یا تو گانڈو ہیں یا لونڈے باز ہیں
پھر میں وہاں سے چلا آیا اور اپنے بستر پر لیٹ گیا،اور مرے ماضی کے سین ایک فلم کی ترہان مرے سامنے چلنے لگے.
انکل جمال کا اپنی چھوتی عمر کے لڑکوں سے دوستی ،امی کا روز رات کو ان کے کمرے میں جانا جب ابا مظفرآباد ہوتے تھے،امی کے پاس روپیوں کا ہونا،فرح کا ان کے ساتھ دوستانہ اور اس کو جیب خرچ دینا وو بھی ٥٠٠٠ ہزار روپے ماہانہ …
ے سب باتیں مرے ذھن میں سوار تھیں اور میں ان سب باتوں کا جواب چاہتا تھا.
میری آنکھوں میں نیند غیب تھی اور میں بیچنی سے انکل جمال کے انے کا انتظار کر رہا تھا،.ایک بجے سیڑیوں کا دروازہ کھلا اور انکل اور جواد غسل خانے میں گئے اور تھوڑی دیر کے بعد جواد بھائی انکل کے روم میں چلے گئے . میں اپنے کمرے کی کھڑکی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا اور میں نے اپنا کمرہ بند کر کے لائٹ بھی بھجھائی هوئ تھی. امی کے کمرے کی بتی روشن هوئ اور امی باہر آییں اور غسل خانے کا دروازہ کھٹکایا.انکل نے دروازہ اوپن کیا اور امی کو اندر کھینچ لیا ، میں فورن صحن کے راستے امی کے روم میں گیا اور وہ دروازہ جو مرے کمرے میں کھلتا تھا وہ کھول کر اس میں سے اپنے روم میں آگیا
اب میں رات کو کسی وقت بھی امی کے کمرے میں دیکھ سکتا تھا.غسل خانے سے امی اور انکل جمال کی ہنسنے کی ہلکی ہلکی آوازیں آرہیں تھیں، وو دونوں باہر آے اور امی انکل کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گیئں
انکل جمال بلکل ننگے تھے اور امی کے کپڑے بھی پانی سے بھیگے ہووے تھے
جب انکل اندر کمرے میں داخل ہووے تو امی نے صحن کا دروازہ بند کر دیا اور ایک دم انکل سے لپٹ گیئں.اور انکل کے ہونٹ چومنے لگیں ، پھر امی نے انکل کو دھکا دے کر بستر پر گرایا اور اپنے کپڑے اتار کر انکل کے اوپر بیٹھ گیئں
اور انکل کے دونوں بازووں کو پہلا کر ان کے ہونٹوں کو چومنے لگیں، وہ انکل کے لنڈ پر بیٹھی تھیں اور اپنی چھوٹ کو انکل جمال کے لنڈ پر رگڑ رہیں تھیں.
میں سکتے میں یہ سب دیکھ رہا تھا،اور یہ سوچ رہا تھا کے کب سے ہو رہا ہے.یہ حرام کاریاں کب سے ہو رہی ہیں,
میرے کمرے میں میری بڑی بہن فرح سوی هوئ تھی اور امی اپنے کمرے سے اپنے شوہر کے بھائی سے کھودے چودآیی کروا رہی تین. خیر امی اوپر سے انکل کے لنڈ کو اپنی چھوٹ پر رگڑھ
رہیں تھیں اور انکل جمال امی کی مست گانڈ میں ہاتھ پھر رہے تھے. پھر امی اوپر سے ہٹ گیئں اور انکل جمال کے ساتھ بیٹھ گیئں ،اور ان کے لنڈ کو ہاتھوں میں پکڑکر چوسنے لگیں ،یوں لگتا تھا کے وو اس کام میں بوہت ماہر ہیں وہ انکل کا لنڈ اور انکل جمال امی کی گانڈ میں انگلی کر رہے تھے.امی کی گانڈ مرے دروازے کے بلکل قریب تھی اور جہاں سے میں دیکھ رہا تھا ووہان سے کوئی تین فیٹ دور تھی اور جب انکل جمال امی کی گانڈ میں انگلی کرتے تھے تو امی اپنی گانڈ اور کھول دیتی تھیں
اور پھر انکل جمال کی پوری انگلی امی کی گانڈ کر اندر تک جاتی تھی ،انکل جمال بھی کبھی ایک اور کبھی دو انگلیاں ڈالتے تھے.
امی مزے سے انکل جمال کا لنڈ اور ٹتے کو دیوانہ وار چوس رہی تھیں اور ساتھ ساتھ انکل جمال کی گانڈ تک کو چوم رہی تھیں.
میرا لنڈ یہ چودائی کا منظر دیکھ کر تن گیا تھا اور میں نے بھی اپنے پاجامے کا ایلسٹک نیچے کر کے اپنی مٹہ مارنے لگا.
امی بولیں؛؛ جمال جان، اب تم بھی میری چھوٹ کو چاٹو
یہ کہ کر امی بسٹر پر لائٹ گیئں اور انکل جمال کو اوپر انے کو کہا
انکل جمال بسٹر پر کھڑے ہووے تو مجھے ان کا لنڈ نظر آیا ، ان کا لنڈ کوئی زیادہ بڑا نہیں تھا یہی کوئی چھ انچ کا ہو گا لیکن موٹا بوہت تھا .
انکل جمال میری امی کے اوپر لیت کے امی کے موممے چوسنے لگے اور اپنا لنڈ امی کی چوٹ پر رگھرنے لگے امی کی حالت قبل یہ دید تھی، ان کا بس نہیں چل رہا تھا کے انکل جمال ان کی پھددی میں اپنا لنڈ جلدی سے ڈال کر ان کو چود دے.لیکن جمال انکل تو امی کے مممے چوسنے میں مصروف تھے. امی نے انکل جمال کو کہا ؛جانو اب مجھ سے صابر نہیں ہوتا ،تم اپنے لنڈ کو میری چوٹ میں ڈال دو اور میری آگ ٹھنڈی کر دو.
انکل جمال نے جب دیکھا کے میری امی بوہت گرم ہو گیئں ہیں تو انھوں نے اپنا لنڈ میری امی کی چوٹ میں ڈال دیا اور اندر باہر کرنے لگے.
جیسے جیسے انکل نے اپنی رفتار بڑھای امی کی آوازیں نکلنے لگیں
اور امی نے اپنی ٹاگوں کو انکل جمال کی کمر کے گرد لپٹا لیے
انکل جمال بولے”’ پارو
اپنی گانڈ کے نیچے تکیہ رکھ لو تو پھر میرا لنڈ تمہاری چوٹ میں اندر تک جائے گا،
امی نے اپنے سر کا تکیہ اپنی گانڈ کے نیچا رکھ کر جمال کو کہا ؛؛ اب تم ڈال دو اپنا لنڈ
انکل جمال نے اپنا چھوٹا سا لنڈ امی کی سے نکالا اور پھر پوری طاقت سے اندر گھسسہ دیا .اور دھکے لگانے لگے . امی بھی پورا پورا انکل جمال کا ساتھ دے رہیں تھیں اور وہ نیچے سے اوپر کی طرف اپنی گانڈ کو ہلا رہیں تھیں
امی کی ٹانگیں آسمان کی طرف تھیں اور تکیہ نیچے ہونے کی وجہ سے انکل جمال کا لنڈ امی چوٹ کے اندر تک آ اور جا رہا تھا،اور امی بھی پوری ترہان لفت اندوز ہو رہی تھیں. تھوڑی دیر اسی طریقے سے چدوانے کے بعد امی نے انکل کو کہا کے میں گھوڑی بن جاتی ہوں تم پیچھے سے میری چوُت مارو،
پھر امی گھوڑی بن گیئں اور انکل جمال نے گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر امی کے چتروں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے کھول لیا اور ان کی چوت میں اپنا لنڈ ڈال کر چودنے لگے
جب انکل کا جسم امی موٹے چتروں سے ٹکراتا تھا تو تھب تھب کی آوازیں اتی تھیں اور انکل پوری قوت سے امی کی چوت ماررہے تھے؛؛انکل جمال نے امی کو بولا کے میں نکلنے کے قریب ہوں
اور انہوں نے اپنے دھکوں کی شدّت میں اضافہ کر دیا ،ادھر امی نے اپنی چوت کے دانے کو زور زور سے مسلنا کیا تاکے وہ انکل جمال کے ساتھ ہی اپنا پانی نکال لین،اور ایک زوردار جھٹکے کے انکل جمال نے اپنی منی امی کی چوت میں اگل دی اور کچھ ہی سیکنڈ کر بعد امی کی چوت کا پانی بھی نکال گیا،
دونوں کافی دیر تک ایک دوسرے سے لپٹ کر خاموش لیٹے رہے
مرے برا حال تھا اور میں برابر مہت مارنے میں لگا ہو تھا.تھوڑی دیر میں میں بھی فارغ ہو گیا اور کمرے کے پردوں سے اپنا لنڈ صاف کیا اور پھر امی اور انکل جمال کا تماشا دیکھنے واپس آگیا
انکل جمال ابھی تک امی کے اوپر تھے اور امی الٹی لیتی ہویں تھیں،جب انکل جمال نے امی کی چوت میں سے اپنا لنڈ نکالا تو وو امی کی منی اور ان کی منی سے لت پٹ تھا. جیسے امی نے اپنے ہونٹوں سے صاف کیا.